Orhan

Add To collaction

تم فقط میرے

تم فقط میرے
از قلم سہیرا اویس
قسط نمبر17

وہ بھی اس کی ماں تھیں، اس کی رگ رگ سے واقف تھیں۔۔ اس لیے انہوں نے پہلے ہی سے اس کی واپسی کے سارے دروازے بند کیے۔
وہ تو بس دل مسوس کر رہ گئی۔ اتنے میں عدیل ، مسکراتا ہوا واپس آتا دکھائی دیا۔  اس وقت، عنقا کو اپنی مسکراہٹ سمیت، وہ، خود بھی بہت برا لگ رہا تھا۔
"بس مجھے نہیں پتہ۔۔ میں نے اپنا پڑھنا ہے۔۔ میں دوسرے کمرے میں جا رہی ہوں۔۔ اب مجھے روکنے کی کوشش مت کیجئے گا۔۔!!" اس نے معصوموں والی شکل بناتے ہوئے اپنی بات منوانے کی اپنی سی کوشش کی، عدیل کو خوشی ہوئی تھی کہ اب کی بار، پھر سے اس نے تمیز سے بات کی تھی۔
"نہیں مسز۔۔!! میں نے کہا ہے ناں کہ آپ یہاں سے کہیں نہیں جائیں گی۔۔!! اس لیے آپ عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میرا حکم سکون سے مان لیں، ورنہ مام نے مجھ سے پرامس لیا ہے کہ میں آپ کو پیار سے ڈیل کروں۔۔ اب اگر سچ مچ پیار سے ڈیل کر لیا ناں۔۔تو آپ کو لگ پتا جائے گا۔۔!!" عدیل نے اسی کے لہجے میں، تپا دینے والی، معنی خیز مسکراہٹ لیے ، اس کے بہت قریب آ کر، اسے وارن کیا اور پھر اس کے گال تھپتھپاتا ہوا ، فریش ہونے کی غرض سے واشروم کی طرف بڑھ گیا۔
وہ پیچھے، گنگ سی بیٹھی، اس کے الفاظ اور بہکے ہوئے لہجے پر غور کر رہی تھی۔۔ "توبہ توبہ۔۔!! کتنے گندے ہیں یہ۔۔!!" اس نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے ڈر کر سوچا اور پھر جلدی جلدی ، اپنی کتابیں وغیرہ لے کر، پڑھنے کے لیے صوفے پر ، اچھی سی سیٹنگ کی۔
××××
عدیل باہر آیا، تو عنقا کو  بڑی توجہ سے اس کی بکس  میں مگن پایا۔۔ وہ ڈر کے مارے، عدیل کی طرف دیکھنے سے بھی پرہیز کر رہی تھی۔۔ اس نے اپنے، ایک چھوٹے جملے سے، عنقا کا پورا دماغ سیٹ کر دیا تھا۔
××××
عنقا کو لگا تھا کہ اس کے ہوتے ہوئے تو ، اس کو اپنے کام کی ککھ سمجھ نہیں آنے والی۔۔ اور پہلے جو تھوڑا بہت وہ پڑھ پا رہی تھی۔۔ اب اس سے بھی جانے والی ہے۔۔ لیکن سب، اس کی توقع کے برعکس ہوا۔
حیرت انگیز طور پر، جس سوال کو لے کر وہ دو دن سے پریشان تھی۔۔ وہ اسے صرف پندرہ منٹ میں تیار ہوا۔ 
وہ تیار کرنے کے لیے اگلا سوال دیکھ رہی تھی کہ اس نے غیر اردای طور پر ہی اپنی نظروں سے ، سامنے بیٹھے عدیل کی طرف ، دیکھا۔۔  وہ بھی لیپ ٹاپ سامنے رکھے۔۔ اپنے آفس ورک میں مصروف تھا۔۔ اور ہمیشہ کی طرح بہت ڈیشنگ لگ رہا تھا۔۔ لیکن اس کی ڈیشنگ پرسنیلٹی سے عنقا کا کیا لینا دینا، اس نے اطمینان کا سانس لیا تھا۔۔ وہ تو شکر کر رہی تھی کہ اس نے دوبارہ، اس کو تنگ نہیں کیا ۔۔!! 
"آہاں۔۔دلربا نظاروں سے، بہت لطف اندوز ہو رہے ہیں کچھ لوگ۔۔!!" عدیل نے ، اس کی طرف دیکھے بغیر، خود کو مصروف، ظاہر کرتے ہوئے، سنجیدگی سے کہا۔ وہ عنقا کی نگاہوں کی تپش خود پر محسوس کر چکا تھا۔
عدیل کے اچانک بولنے پر عنقا بری طرح سٹپٹائی۔۔۔ اور پھر کوئی جواب دے بغیر ہی کتابوں میں سر دے کر بیٹھ گئی، اب تو اس نے توبہ کی کہ وہ بالکل بھی ادھر اُدھر نہیں دیکھے گی۔۔!! اسے اچھی خاصی خفت محسوس ہوئی تھی۔
عدیل نے اس کی طرف دیکھا ، اس کی حرکات ملاحظہ کیں۔۔ ایک دھیمی سی مسکراہٹ نے ، اس کے لبوں کا احاطہ کیا۔
 "تم تو تم تھیں۔۔پر تمہاری بہن۔۔!! ہر چیز میں تم سے چار ہاتھ آگے ہے۔۔!! اس کی معصومیت ، خوبصورتی، انداز۔۔ الغرض ہر چیز۔۔!! بس محبت کی کمی ہے۔۔!! یہ مجھ سے ویسی محبت نہیں کرتی جیسی تم کرتی تھیں۔۔!!" وہ مسکراتے ہوئے ہی، اپنی نظریں عنقا پر گاڑھے، اپنے تصور میں اریزے سے مخاطب ہوا۔
یہ پہلی مرتبہ تھا کہ وہ اریزے کو سوچ کر مسکرایا تھا اور وہ بھی عنقا کی وجہ سے۔۔!! اس لڑکی کی وجہ سے ، جسے وہ کبھی اپنی جان، اپنی اریزے کا قاتل مانتا تھا۔۔!! جسے اس نے بے وجہ ہی اتنی تکلیف دی تھی۔۔!! جسے وہ مارنے کے در پر تھا۔۔!! جسے وہ اپنے انتقام کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا۔۔!!
××××
رات کے دو بج چکے تھے۔۔ وہ ابھی تک تو اپنی پڑھائی میں مگن تھی۔۔ لیکن اب یوں بیٹھے بیٹھے ، اسکی کمر اکڑنے لگی تھی۔۔ اسے نیند بھی ، بہت زیادہ آ رہی تھی۔۔ اس سے اپنی کتابیں بند کیں۔۔ ایک بڑی سی جمائی لی اور کھڑی ہوئی۔
"ہائے اللّٰه۔۔!! اب سوؤں کہاں۔۔!!" اس نے پریشانی سے سوچا۔
صوفہ بھی اتنا بڑا نہیں تھا کہ وہ ، وہاں لمبی ہو کر لیٹ پاتی۔۔!! اور عدیل کے ساتھ سونے کا تو وہ تصور بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔ اس لیے کچھ دیر سوچنے کے بعد۔۔ وہ دبے قدموں سے دروازے کی طرف بڑھی۔۔ دروازے تک پہنچ کر، اس نے آہستگی سے ، دروازے کا ہینڈل گمھایا۔۔ تاکہ وہ یہاں سے باہر نکل کر۔۔ اپنے دوسرے والے روم میں جا سکے۔۔ 
پر برا ہو اس کی قسمت کا کہ عدیل اب تک ، سونے کی ایکٹنگ کر رہا تھا ، در حقیقت تو وہ جاگا ہوا تھا۔۔ اور اس کے دروازہ کھولتے ہی وہ بھی۔۔ اپنی پوری آنکھیں کھولے۔۔ بڑے خونخوار سے تیور لیے عنقا کی طرف دیکھ رہا تھا۔
عنقا کی تو ڈر کے مارے جان نکلنے کو ہو رہی تھی۔۔ اسے عدیل کی وارننگ یاد آئی تھی۔۔ اور وہ اب تک ، اس کا پہلے دن والا رویہ بھی یاد تھا۔۔ "ایک تو اس بندے کا پتہ بھی نہیں چلتا۔۔ نجانے کب کیا کردے۔۔ کب کیسا ہوجائے۔۔" اس نے ڈرتے ہوئے سوچا۔
در حقیقت، وہ ابھی تک۔۔ اس کے بدلے ہوئے رویے سے مطمئن نہیں ہوئی تھی۔۔ نہ ہی اسنے کوئی خوش فہمی پالی تھی۔
"کہاں جا رہی ہو۔۔؟؟" عدیل نے سختی سے پوچھا۔ اسے تھوڑا تھوڑا غصہ سا آ رہا تھا کہ وہ اس کی بار بار کی کہی گئی بات آخر کیوں نہیں مان رہی۔۔!!
 اسے یہ ہرگز پسند نہیں تھا کہ کوئی اس کے حکم کو اگنور کرے۔۔!! خاص طور پر ایسا شخص۔۔ جس پر وہ اپنے دل کے ، بہت ہی خاص جذبے لٹانے کے لیے تیار ہو۔۔!! جسے وہ اپنانے کو ، اور اپنا ماننے کو تیار ہو۔۔۔!!
اریزے نے بھی، کبھی بھی۔۔ اس کے کسی عام سے حکم کو بھی نہیں ٹالا تھا۔۔ کبھی اختلاف نہیں کیا تھا۔۔!! عادتیں ہی بگاڑ ڈالیں تھیں اس کی۔۔!!

   1
0 Comments